ہاں مگر ایسے بھی ہیں

:سرور بارہ بنکوی کا ایک شہرہ آفاق شعر ہے کہ

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے، وہ لوگ

شایدآپ نے دیکھے نہ ہوں، ہاںمگر ایسے بھی ہیں

ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں، جنھیں دیکھ کر آپ کو زندگی سے عشق ہوجائے۔ مگرامریکا کے شہر شکاگو میںایک ایسا پاکستانی آباد ہے، جو اس شعر کی تفسیراور جیتی جاگتی تصویرہے۔نام ہے ان کااحتشام ارشد ۔احتشام ایک قلمکار ہیں، ادب نواز سرگرم سماجی کارکن ہیںاور دردمند دل رکھنے والے انسان ہیں۔ ان کا امریکا میں کوئی بڑا کاروبار نہیں ہے، بلکہ آج بھی ملازمت کرکے اپنی روزی کماتے ہیں۔لیکن ایک دردمند انسان ہونے کے ناتے وہ مستحقین کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کو زندگی کی علامت سمجھتے ہیں۔

گفتگو میں عاجزی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔پاکستان سے جانے والے ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی امریکا میںہر طرح سے نگہداشت ان کا اولین فریضہ ہے۔وہ امریکا میں اردو کی ترقی اور ترویج کے کام میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور مشاعروں کی روایت کوجاری رکھنے کی کوششوں میں بھی مصروف رہتے ہیں۔

لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ جو بیشتر پاکستانیوں کی نظروں سے اوجھل ہے، وہ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی دامے درمے اور سخنے ہر قسم کی امداد ہے۔ انھوں نے سیاست اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر کسمپرسی کی زندگی گذارنے والے ان محصورین کی زندگیوں میں آسودگی اور بہتری لانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔جن میںمحصورین کی بستیوں میر پور اور محمد پور میں عالمی معیار کے تعلیمی اداروں کا قیام،صحت کے مراکز اور روزگارکی فراہمی کے لیے OIC سمیت مختلف بین الاقوامی تنظیموں سے روابط قائم کرنا ان کی مشغولیات کا حصہ ہیں۔

وہ ہرسال موسموں کی شدت کی پرواہ کیے بغیر اپنی سالانہ چھٹیاںبنگلہ دیش کے دورہ میں صرف کرتے ہیں۔وہاں بیشتروقت محصورین کے ساتھ گذارتے ہیں۔ ان کے مسائل سننے اور سمجھنے  کے علاوہ ان کے تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے لیے متبادل راہیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس مقصد کے لیے سیاسی رہنمائوں ، سماجی تنظیموں اور انتظامیہ کے ساتھ ان مسائل کے حل کے لیے گفت وشنیدبھی کرتے ہیںاور یوں اپنی چھٹیاں مفلوک الحال لوگوں کے ساتھ گذار کر واپس چلے جاتے ہیں۔

بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ محصورین کا مسئلہ کیا ہے اور42برس گذرجانے کے باوجود کیوں حل نہیں ہوسکا۔پاکستان میں محصورین کی پاکستان واپسی کے حوالے سے خاصی تلخ فضاء پائی جاتی ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے اس سلسلے میں کئی نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں، لیکن دو متحارب نقطہ نظر مختلف ومتضاد رویے  ان افراد کے مسائل کے حل کی راہ میں بنیادی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔پاکستان میں محصور پاکستانیوں کے حوالے سے ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ جن افراد نے اگست1947ء میں سابقہ مشرقی پاکستان کی جانب ہجرت کی تھی، انھیں اب اس ملک کا شہری بن کررہنا چاہیے، کیونکہ بنگلہ دیش بھی ایک مسلم ملک ہے۔

اس ملک میں ان افراد کے ضم ہوجانے سے کوئی سیاسی وسماجی مسئلہ کھڑا نہیں ہوگا،کیونکہ یہ اس معاشرے میں آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔اس کے برعکس ان افراد کے پاکستان آنے سے سندھ میں بالخصوص آبادیاتی تناسب (Demography)متاثر ہوگا۔کیونکہ ان افراد کی اکثریت کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کا رخ کرے گی، جہاں ان کے عزیزواقارب آباد ہیں۔اس طرح بعض نئے سیاسی وسماجی مسائل جنم لیں گے۔

اس کے برعکس دوسرا نقطہِ نظر یہ ہے کہ ان افراد اور ان کے بزرگوں نے اگست1947ء میں پاکستان کے لیے ہجرت کی تھی۔ جب بنگلہ دیش میں آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی تو ان افراد نے جنھیں عرفِ عام میں بہاری کہا جاتا ہے،اس تحریک کو کچلنے میں پاکستانی حکومت کا ساتھ دے کر پاکستان کی سالمیت کو بچانے کی کوشش کی۔کیونکہ انھوں نے اور ان کے آباواجداد نے پاکستان کے لیے ہجرت کی تھی،اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان واپسی ان کا جائز قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ اس کے علاوہ فوج کا ساتھ دینے کی وجہ سے بنگالی عوام اور حکومت انھیں اتنا طویل عرصہ گذرجانے کے باوجود غدار تصورکرتے ہیں۔

اس حلقہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے بعض سیاسی حلقے 30لاکھ افغانیوں کو تو اپنی سرزمین پر آباد ہونے پر معترض نہیں ہیں،جنہوں نے ملک میں منشیات اور اسلحے کو عام کرنے کے علاوہ سیاسی وسماجی کلچر کوبھی بری طرح پامال کیا ہے۔ لیکن ڈھائی لاکھ محصورین ، جو اربن معاشرت سے تعلق رکھتے ہیںاور اپنی ہنرمندی سے پاکستان کو بہتر افرادی قوت مہیا کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، ان کی آمد کو چیلنج تصور کیا جارہا ہے، ایک ناقابلِ فہم مظہر (Phenomenon)ہے۔

یہ دونوں نقطہ نظر اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں۔ان میں سے کسی ایک کو رد کرنا یا دوسرے کو شرف قبولیت بخشنا ممکن نہیں ہے۔لیکن جس طرح سفید اور سیاہ کے درمیان گرے ایریا بھی ہوتا ہے۔اسی طرح ان متحارب سوچ اور رویوں کے درمیان ایک درمیانی راستہ بھی پایا جاتا ہے۔یعنی ان ڈھائی لاکھ افراد کو پاکستان لانے یا نہ لانے کی بحث میں الجھے بغیر ان کی حالتِ زار کو بہتر بنانے کے اقدامات بھی کیے جاسکتے ہیں۔

کیونکہ اس معروضی زمینی حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ ڈھائی لاکھ افراد ڈھاکہ کے مضافات میں اذیت ناک اور انسانیت سوز ماحول میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس لیے اگر انھیں تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات کی فراہمی کا بندوبست کردیا جائے تو یہ خاندان بھی ایک بہتر اور آسودہ زندگی گذارنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔لہٰذاان افراد کو پاکستان لانے کی ضدکرنے کے بجائے ایسے متبادل اقدامات کیے جائیں جن کے نتیجے میں ان افراد کی حالت زار کو بہتر بنانا ممکن ہوسکے۔

احتشام ارشد نے یہی راستہ اختیار کیا ہے۔ یعنی سیاسی کشمکش سے بالاتر ہوکرمحصورین کی حالت زار کو بہتر بنانے کی ذمے داری سنبھال لی ہے۔احتشام نے بنگلہ دیش کے محصورین کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے پہلے اقدام کے طور پر ان کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی ذمے داری ترجیحی بنیادوں پر قبول کی ہے۔اس کے بعد وہ ان بستیوں میں صحت کے مراکز قائم کرنے کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں ان کے لیے باعزت روزگار کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔

احتشام ارشد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی اصل توجہ تعلیم کی معیاری فراہمی پر ہے۔تاکہ وہ نوجوان جن میں ذہانت اور صلاحیت ہے، یورپ اور امریکی ممالک میں اپنا مستقبل بنانے کی کوشش کرسکیں۔اس مقصد کے لیے انھوں نے میرپور اور محمد پور کی بستی میںمقامی معیار کے بجائے بین الاقوامی معیار کو مدنظر رکھ کرتعلیمی ادارے قائم کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے OIC(مسلم ممالک کی تنظیم)سے رابطہ کرکے کم از کم50ہزار افراد کو مختلف خلیجی ممالک میں ملازمتوںدلانے کی اسکیم پر متفق کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کے نتیجے میں تقریباً2لاکھ افراد کی زندگیوں سے افلاس وغربت کا خاتمہ ممکن ہے۔

بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی حالتِ زار کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس بستی میں ٹین کی دیواروں اور چھت کا ایک مکان 8X8کے ایک کمرے پر مشتمل ہوتا ہے، جس میںایک خاندان کے کم ازکم 6افراد زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ شدید گرمی میں یہ کمرے جہنم کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔مگر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ یہ لوگ42برس گذر جانے کے باوجود پاکستان آنے پر کیوں مصر ہیں ،بنگلہ دیشی قومیت کیوں نہیں لے لیتے؟ احتشام ارشد کا کہنا تھا کہ اس میں صرف محصورین کا قصور یا ضد کا کوئی کردار نہیں ہے، بلکہ بنگلہ دیشی حکومت بھی نہیں چاہتی کہ وہ بنگلہ دیشی قومیت حاصل کریں۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کو ان کی جائیداد واپس کرنا پڑے گی، جس سے نئے سیاسی وسماجی مسائل پیدا ہونے کا امکان ہے۔اس کے علاوہ عصبیتوں کے ماحول کے خاتمے کے لیے42برس بہت کم مدت ہوتی ہے۔

احتشام ارشد کا کہنا تھا کہ بیروزگاری، غربت اور کم علمی مختلف نوعیت کے جرائم کو پروان چڑھانے کا سبب بنتی ہے۔42برس سے غربت ، افلاس اور مفلوک الحالی کی زندگی گذارنے والے بیشتر خاندانوں کے نوجوان مختلف جرائم میں ملوث ہونے لگے ہیں۔ اسی طرح جسم فروشی جیسے گھنائونے جرائم میں اضافے کا سبب بھی افلاس اور غربت کی شرح میں اضافہ ہے۔کیونکہ پیٹ کی آگ کو انسان نے کسی نہ کسی طور بجھانا ہوتا ہے۔ان مسائل کی روک تھام کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے سیاسی اور حکومتی معاملات میں مداخلت کیے بغیر ان خاندانوں کی مختلف اور متبادل طریقوں سے معاونت کی جائے تاکہ ایک طرف ان خاندانوں کو باعزت زندگی گذارنے کے مواقعے مل سکیں اور دوسری طرف کوئی نئی سیاسی چپقلش بھی پیدا نہ ہونے پائے۔

احتشام ارشد جس انداز میں کام کررہے ہیں، وہ اس بات کا غماز ہے کہ اگر انسان نیک نیتی کے ساتھ کام کرکے اور لوگوں کی فلاح کے لیے سیاسی ٹکرائو سے درگذرکرتے ہوئے متبادل راہ کا انتخاب کرے تو کامیابی کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔

Posted in Other Articles.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *